کنج قفس سے پہلے گھر اپنا کہاں نہ تھا
کنج قفس سے پہلے گھر اپنا کہاں نہ تھا
آئے یہاں تو حوصلۂ آشیاں نہ تھا
تجھ کو سمجھ کے خواب میں پہنچا میں جس جگہ
دیکھا جو آنکھ کھول کے تو کچھ وہاں نہ تھا
اک اک قدم پہ اب تو قیامت کی دھوم ہے
آگے تو یہ چلن کبھی اے جان جاں نہ تھا
ٹھہری جو وصل کی تو ہوئی صبح شام سے
بت مہرباں ہوئے تو خدا مہرباں نہ تھا
کیونکر قسم پہ آج مجھے اعتبار آئے
کس دن خدا تمہارے مرے درمیاں نہ تھا
توڑا جو پھول بلبل شیدا کے سامنے
کیا تیرے دل میں درد کچھ اے باغباں نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |