کوئل (سرور جہاں آبادی)
او چمن کی اجنبی چڑیا! کہاں تھی آہ! تو
کیا کسی صحرا کے دامن میں نہاں تھی آہ! تو
تیرے دل کش زمزمے تھے سبزہ زاروں میں خموش
آشیانہ تھا ترا گلشن میں بزم بے خروش
کھینچتی وقت سحر دل کو تری کو کو نہ تھی
چھاؤں میں تاروں کی محو نغمۂ دلجو نہ تھی
موسم سرما میں اے سرمایۂ صبر و شکیب
بے صدا تیرا پس پردہ تھا ساز دل فریب
مرحبا اے پیکر پیک سبک گام بہار
لے کے پھر تو گرمیوں میں آئی پیغام بہار
تو ادھر آئی فضائے گل کا دور آیا ادھر
تو نے گائے گیت اور آموں کا بور آیا ادھر
طائران باغ نے چھیڑا ہے ساز انبساط
تیرے مقدم میں ہے شاخوں پر ہم آہنگ نشاط
پہنی ننھی ننھی کلیوں نے قبائے شبنمیں
آ رہی ہے کان میں تیری صدائے دلنشیں
کوئی انجم آسماں کا اور سبک پرواز شوق
رہنما ہے کیا ترا دلدادۂ انداز شوق
تو جو آنے والے موسم کا نشاں پاتی ہوئی
اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہے یوں گاتی ہوئی
تیرے مقدم میں شکیب خاطر نا شاد میں
موسم گل کو بھی دیتا ہوں مبارک باد میں
تو چمن میں اڑ کے کیا آئی کہ آ پہنچی بہار
گا رہی ہیں چھوٹی چڑیاں سبز کنجوں میں ملہار
دامن رنگیں میں اک دوشیزۂ ناکتخدا
چن رہی ہے ننھی ننھی سرخ کلیاں خوش نما
اور تجھ سے ہم سرود نغمۂ اعجاز ہے
بزم قدرت میں تری گویا شریک راز ہے
میٹھے نغمے گانے والی او چمن کی نازنیں
ہے تر و تازہ ہمیشہ تیرا کنج دل نشیں
اور مصفا ہے فضائے آسماں تیرے لئے
ہے شفق جام شراب ارغواں تیرے لئے
تیرے نغموں میں اثر اندوہ حرماں کا نہیں
سال میں تیرے گزر فصل زمستاں کا نہیں
مجھ کو قسام ازل دیتا اگر دو بال و پر
اڑ کے ہوتا میں بھی تیرے ساتھ سرگرم سفر
بن کے ہم دونوں رفیق موسم جوش بہار
کرتے خوش خوش ہر برس گلگشت دشت و کوہسار
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |