کوئی اس سے نہیں کہتا کہ یہ کیا بے وفائی ہے
کوئی اس سے نہیں کہتا کہ یہ کیا بے وفائی ہے
چرا کر دل مرا اب آنکھ بھی اپنی چرائی ہے
اٹھو اے مے کشو آباد مے خانہ کریں چل کر
ذرا دیکھو تو کیا کالی گھٹا گھنگھور چھائی ہے
بتوں کے عشق سے ہم باز آئے ہیں نہ آئیں گے
نہیں پروا ہمیں دشمن اگر ساری خدائی ہے
نشاط دل کو دشمن کے بنائیں گے اسی سے ہم
وہ کہتے ہیں تری آہ رسا تیرا ہوائی ہے
بگڑ کر غیر سے تم آئے ہو ہم یہ سمجھتے ہیں
ہمارے سامنے بے وجہ کیوں صورت بنائی ہے
ہر اک مشکل سے مشکل کام بنتا ہے بنانے سے
مگر بگڑی ہوئی قسمت کسی نے کب بنائی ہے
خبر سن کر مرے مرنے کی وہ کہنے لگے ہنس کر
کسی دشمن نے شاید یہ خبر جھوٹی اڑائی ہے
گلوں کو نغمۂ بلبل سنائی تک نہیں دیتا
ترے دیوانوں نے وہ دھوم گلشن میں مچائی ہے
دل عاشق میں ہو اے مشرقیؔ گر جذب دل کامل
وہ بت پھر کیوں نہ مائل ہو کوئی گھر کی خدائی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |