کوئی جانے تو کیا جانے وہ یکتا ہے ہزاروں میں

کوئی جانے تو کیا جانے وہ یکتا ہے ہزاروں میں
by داغ دہلوی

کوئی جانے تو کیا جانے وہ یکتا ہے ہزاروں میں
ستم گاروں میں عیاروں میں دل داروں میں یاروں میں

کسی کا دل تو کیا شیشہ نہ ٹوٹا بادہ خواروں میں
یہ توبہ ٹوٹ کر کیوں جا ملی پرہیزگاروں میں

کہاں ہے دختر رز اے محتسب ہم بادہ خواروں میں
ترے ڈر سے وہ کافر جا چھپی پرہیزگاروں میں

کوئی غنچہ دہن ہنس کر ہمیں اب کیا ہنسائے گا
بہاریں ہم نے لوٹی ہیں بہت اگلی بہاروں میں

انہیں لوگوں کے آنے سے تو میخانے کی عظمت ہے
قدم لو شیخ کے تشریف لائے بادہ خواروں میں

وہ کترا کر چلے ہیں میکدے سے حضرت زاہد
بڑے مرشد ہیں ہاتھوں ہاتھ لانا ان کو یاروں میں

پڑا رویا کرے وہ داغؔ بیکس اس طرح تنہا
کہ جس کی رات دن ہنس بول کر گزری ہو یاروں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse