کوئی حسین ہے مختار کار خانۂ عشق

کوئی حسین ہے مختار کار خانۂ عشق
by احمد حسین مائل
304301کوئی حسین ہے مختار کار خانۂ عشقاحمد حسین مائل

کوئی حسین ہے مختار کار خانۂ عشق
کہ لا مکاں ہی کی چوکھٹ ہے آستانۂ عشق

نگاہیں ڈھونڈھ رہی ہیں دل یگانۂ عشق
اشارے پوچھ رہے ہیں کہاں ہے خانۂ عشق

پھریں گے حشر میں گرد دل یگانۂ عشق
کریں گے پیش خدا ہم طواف خانۂ عشق

نئی صدا ہو نئے ہونٹھ ہوں نیا لہجہ
نئی زباں سے کہوں گر کہوں فسانۂ عشق

جو مولوی ہیں وہ لکھیں گے کفر کے فتوے
سناؤں صورت منصور اگر ترانۂ عشق

اگر لگے تو لگے چوٹ میرے نالے کی
اگر پڑے تو پڑے دل پہ تازیانۂ عشق

جو ڈال دیں اسے پتھر پہ بھی پھلے پھولے
درخت طور بنے سبز ہو کے دانۂ عشق

تمہیں کہو جو لٹا دیں تو کون خالی ہو
خزانہ حسن کا افزوں ہے یا خزانۂ عشق

وہ رات آئے کہ سر تیرا لے کے بازو پر
تجھے سلاؤں بیاں کر کے میں فسانۂ عشق

وہ در تک آتے نہیں در سے ہم نہیں اٹھتے
ادھر بہانۂ حسن اور ادھر بہانۂ عشق

سکھائی کس نے یہ رفتار میرے نالے کو
کمر کی طرح لچکتا ہے تازیانۂ عشق

کسی کو پیار کرے گا شباب میں تو بھی
ترے بھی گھر میں جلے گا چراغ خانۂ عشق

جو خوش نویس ملے کوئی دیں گے دل اپنا
ہم اس کتاب میں لکھوائیں گے فسانۂ عشق

گئے ہیں وہ مری محفل میں بھول کر رومال
یہ جانماز بچھا کر پڑھوں دوگانۂ عشق

کسی کے حسن نے کافر بنا دیا مائلؔ
لگا کے قشقۂ درد شراب خانۂ عشق


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.