کوئی حیران ہے یاں کوئی دلگیر
کوئی حیران ہے یاں کوئی دلگیر
کہے تو ہے یہ عالم بزم تصویر
جلے تک کا میں اپنے قدرداں ہوں
یہ چٹکی راکھ ہے اک طرفہ اکسیر
نگاہ عجز کچھ کچھ کارگر تھی
سو اب جاتی رہی اس کی بھی تاثیر
وہ دن کیا با حلاوت تھے کہ احباب
موافق تھے بہم جوں شکر و شیر
کروں کیوں کر نہ میں راسخؔ مباہات
کہ ہیں استاد میرے حضرت میرؔ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |