کوئی دم تھمتا نہیں باران اشک
کوئی دم تھمتا نہیں باران اشک
الاماں از چشم پر طوفان اشک
کس لب میگوں کی خواہش ہے مدام
جوش زن ہے یہ مے جوشان اشک
شور نالوں کا مرے سن دم بدم
سہمگیں ہیں یک قلم طفلان اشک
کشتیٔ گردوں یقیں ہے ڈوب جائے
بڑھ چلا ہے بحر بے پایان اشک
شوق میں اس سلک دنداں کی مدام
ہیں نکلتے یہ در غلطان اشک
جل کے ہوتا خاک سوز دل سے تن
گر نہ کرتی آنکھ یہ سامان اشک
فیض سے خون دل مجروح کی
رشک گلشن ہو گیا دامان اشک
دھو گیا خاطر سے جاناں کی غبار
جان پر میری ہے یہ احسان اشک
ہوں میں گریاں عشق خادم شاہ میں
اس لیے آثمؔ ہوں میں نازان اشک
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |