کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح
لگا دو آگ کوئی آشیاں میں
کوئی دن بوالہوس بھی شاد ہو لیں
دھرا کیا ہے اشارات نہاں میں
کہیں انجام آ پہنچا وفا کا
گھلا جاتا ہوں اب کے امتحاں میں
نیا ہے لیجئے جب نام اس کا
بہت وسعت ہے میری داستاں میں
دل پر درد سے کچھ کام لوں گا
اگر فرصت ملی مجھ کو جہاں میں
بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |