کوئی میداں نہ جیتا عشق کا فرہاد کے آگے

کوئی میداں نہ جیتا عشق کا فرہاد کے آگے
by انعام اللہ خاں یقین

کوئی میداں نہ جیتا عشق کا فرہاد کے آگے
کسو نے دم نہ مارا تیشۂ فولاد کے آگے

گئے دوڑے نہ آخر حضرت یعقوب کنعاں سے
زمیں ناپے پدر بھی حسن مادر زاد کے آگے

اکیلا کیونکہ لگتا بستیوں میں دل بچارے کا
نہ ہوتا نقش شیریں کا اگر فرہاد کے آگے

اگر دھڑکا ہو جنت میں تو بد تر ہے جہنم سے
ہمیں گل خار سا لگتا ہے اس صیاد کے آگے

یقیںؔ اس قد کے آگے اس طرح سے سرو رسوا ہے
درختان بیابانی ہیں جوں شمشاد کے آگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse