کوئی نادان نہ دانا اچھا

کوئی نادان نہ دانا اچھا (1927)
by عاشق حسین بزم آفندی
324760کوئی نادان نہ دانا اچھا1927عاشق حسین بزم آفندی

کوئی نادان نہ دانا اچھا
آپ اچھے تو زمانا اچھا

نہ ہوا دل کا لگانا اچھا
غلطی کی نہیں جانا اچھا

ایسے بگڑوں کا بنانا اچھا
وہ جو روٹھیں تو منانا اچھا

آئے ہیں غیر کو لے کر ہمراہ
ایسے آنے سے نہ آنا اچھا

ساتھ ہے زیر زمیں تاروں کے
یہ ملا اس کو خزانہ اچھا

یہ مقابل ہے وہ سر چڑھتا ہے
آئنے سے تو ہے شانا اچھا

مجھ سے ملنے میں بہانے نہ کرو
خون اس سے تو بہانا اچھا

اے حنا جاتے ہیں وہ غیر کے گھر
رنگ ایسے میں جمانا اچھا

لوٹ ہوں خال رخ یار پہ میں
ہو جو قسمت میں یہ دانا اچھا

بادشہ سے بھی نہیں دبتے تھے
تھا لڑکپن کا زمانا اچھا

درد ہو جس میں حکایت ہے وہ خوب
جو ہو رنگیں وہ فسانا اچھا

طور پر کام تھا کیا جلوے کا
دل میں آنکھوں میں سمانا اچھا

یہی اے بزمؔ رہے دل میں خیال
ہم برے سب سے زمانا اچھا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C_%D9%86%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D9%86_%D9%86%DB%81_%D8%AF%D8%A7%D9%86%D8%A7_%D8%A7%DA%86%DA%BE%D8%A7