کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل

کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل
by ریاض خیرآبادی

کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل
ہوا کیا لٹ گیا دل مٹ گیا دل

یہ کہہ کر دے دیا مجھ کو مرا دل
ہمیں کوسے گا دے گا بد دعا دل

مزا دے جائے گی مجھ کو تری آنکھ
مزا دے جائے گا تجھ کو مرا دل

چمن میں جو کھلا گل میں یہ سمجھا
کہ ہے میرا یہ مرجھایا ہوا دل

اٹھے گا لطف صحبت کا ابھی تو
نئے تم ہو نئے ہم ہیں نیا دل

کسی سے یوں دغا کرتے نہیں ہیں
ارے او بے مروت بے وفا دل

قیامت ہے تمہاری چلبلی شکل
قیامت ہے ہمارا چلبلا دل

ہمارا دل ہمارے کام کا ہے
کہاں پائیں تمہارے کام کا دل

بہت ہے جم کو اپنے جام پر ناز
ذرا لانا مرا ٹوٹا ہوا دل

کسی کا زور پھر چلتا نہیں ہے
کسی سے جب کسی کا مل گیا دل

اسے کس منہ سے کہتے ہو برا تم
تمہیں کس دل سے دیتا ہے دعا دل

گیا وہ داغ لے کر داغ دے کر
نشانی دے گیا دل لے گیا دل

حسیں اس کو برا سمجھے بچی جاں
برا بن کر بہت اچھا رہا دل

کہیں کیا کس نے لوٹا کس کو لوٹا
لٹے ہم تم لٹا جوبن لٹا دل

وہی اچھا تھا اس چھاتی کی سل سے
بدل دیتا کسی بت سے خدا دل

تمہاری راہ میں وہ بھی پڑا ہے
ذرا دیکھے ہوئے ٹوٹا ہوا دل

کوئی اب مفت بھی خواہاں نہیں ہے
ریاضؔ ایسا گیا گزرا ہوا دل

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse