کوئی یہ اقبالؔ سے جا کر ذرا پوچھے ضیاؔ

کوئی یہ اقبالؔ سے جا کر ذرا پوچھے ضیاؔ (1938)
by محمد صادق ضیا
324502کوئی یہ اقبالؔ سے جا کر ذرا پوچھے ضیاؔ1938محمد صادق ضیا

کوئی یہ اقبالؔ سے جا کر ذرا پوچھے ضیاؔ
مدتوں سے کیوں تری بانگ درا خاموش ہے

ایک عرصہ ہو گیا نغمے نہیں فردوس گوش
تشنۂ ساز لب اقبالؔ ہر اک گوش ہے

بزم ہستی میں وہی اب تک ہے پیدا انتشار
خود ہی مسلم مضطرب ہے خود مصیبت کوش ہے

اس گلستاں میں مناظر کا وہی ہے رنگ بھی
دیکھنے والا فریب دید میں مدہوش ہے

خوں شہیدوں کا رواں ہے جنگ کے میدان میں
اور غازی کی زباں پر نعرۂ پر جوش ہے

کیا قلم جولانیاں اپنی دکھا سکتا نہیں
وہ قلم جس کی نوا بھی صور کی ہم دوش ہے

کیا ترے جذبات کے شعلے بھڑک سکتے نہیں
کیا ترا وہ گلخن پر سوز اب گل پوش ہے

کیا ابھی باقی ہے تیری روح میں اگلی تڑپ
آ میں دیکھوں اب بھی کیا سینے میں تیرے جوش ہے

حشر ہے عالم میں برپا اور تو ہے مطمئن
شور ہے محفل میں پیدا اور تو خاموش ہے

جاگ اٹھی قوم تیرے نغمۂ بیدار سے
پہلے وہ بے ہوش تھی اور آج تو بے ہوش ہے

کند تلواریں ہوئیں عہد زرہ پوشی گیا
جاگ اٹھ غفلت سے وقت خود فراموشی گیا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).