کوئے دشمن سے اسے چھپ کے نکلتے دیکھا

کوئے دشمن سے اسے چھپ کے نکلتے دیکھا
by ریاض خیرآبادی

کوئے دشمن سے اسے چھپ کے نکلتے دیکھا
ہم نے نقش قدم یار کو چلتے دیکھا

ہائے کیا حال دم وصل ہمارا ہوگا
بوسہ لینے میں تمہیں رنگ بدلتے دیکھا

ابر بن کر جو برس پڑنے کو آیا واعظ
بے طرح ہم نے خم مے کو ابلتے دیکھا

یہ بھی پینا ہے کوئی چال ہے یہ بھی کوئی
ہر قدم پر انہیں سو بار سنبھلتے دیکھا

یہی آنکھیں ہیں کہ جن میں نہیں اب نام کو اشک
انہیں آنکھوں سے کبھی خون ابلتے دیکھا

حشر کے روز نہ تاب ابر کرم کو آئی
مجھ گنہ گار کو جب دھوپ میں جلتے دیکھا

گیسوئے حور کہو سبزۂ تربت کیسا
قبر دشمن سے دھواں ہم نے نکلتے دیکھا

کوچۂ عشق میں اللہ رے پا مردیٔ دل
ٹھوکریں کھا کے اسے ہم نے سنبھلتے دیکھا

غیر کے گھر سے جھجکتے ہوئے تم نکلے تھے
رکتے دیکھا تمہیں پھر چھپ کے نکلتے دیکھا

دل میں کیا جان تھی کیا قطرۂ خوں کی تھی بساط
ملتے دیکھا اسے ہاتھوں سے مسلتے دیکھا

پھول لالے کا کھلا تھا کہ شفق شام کی تھی
وصل کی رات کو بھی رنگ بدلتے دیکھا

کبھی کچھ رات گئے یا کبھی کچھ رات رہے
ہم نے ان پردہ نشینوں کو نکلتے دیکھا

خون دل پر ہے عبث رشک تری مہندی کو
اپنی ہی آگ میں ہم نے اسے جلتے دیکھا

دل بیتاب تھا یا آگ کی چنگاری تھی
کس قدر جلد انہیں پاپوش سے ملتے دیکھا

واہ کیا رنگ ہے کیا خوب طبیعت ہے ریاضؔ
ہو زمیں کوئی تمہیں پھولتے پھلتے دیکھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse