کوشش پیہم کو سعیٔ رائیگاں کہتے رہو
کوشش پیہم کو سعیٔ رائیگاں کہتے رہو
ہم چلے اب تم ہماری داستاں کہتے رہو
گفتنی باتیں سہی نا گفتنی باتیں سہی
چپ نہ بیٹھو کوئی افسانہ یہاں کہتے رہو
مصلحت کیا بات جو حق ہی وہ کہہ دو برملا
لاکھ ہوں احباب تم سے بد گماں کہتے رہو
ہم کہ تھے آزاد آزادی کی خاطر مر گئے
جینے والو تم قفس کو آشیاں کہتے رہو
صرف کہنے سے زمیں کیا آسماں ہو جائے گی
کچھ نہیں ہوگا زمیں کو آسماں کہتے رہو
راہ کیا منزل ہے کیسی ہر حقیقت ہے فریب
کارواں کو بھی غبار کارواں کہتے رہو
کیوں کرو اخترؔ کی باتیں وہ تو اک دیوانہ ہے
تم تو یارو اپنی اپنی داستاں کہتے رہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |