کون دل ہے مرے اللہ جو ناشاد نہیں

کون دل ہے مرے اللہ جو ناشاد نہیں
by ریاض خیرآبادی

کون دل ہے مرے اللہ جو ناشاد نہیں
کون گھر ہے مرے اللہ جو برباد نہیں

نازنیں جان بھی لیں تو کوئی بیداد نہیں
چوڑیاں ہاتھ میں ہیں خنجر فولاد نہیں

اے نسیم سحری ساتھ لیے جا سوئے بام
نفس رد ہے نالہ نہیں فریاد نہیں

سبز باغ آپ دکھائیں نہ اب آزادی کے
آپ کے باغ میں تو سرو بھی آزاد نہیں

چپ سے ہیں کچھ مرے آغوش میں وہ حشر کے دن
یہ وہی ہیں جنہیں پیمان وفا یاد نہیں

دیکھتے رنگ حنا جاتے ہیں مقتل کی طرف
ہاتھ میں تیغ نہیں خنجر فولاد نہیں

ہے تری جیب پر آج آنکھ نشیمن کے عوض
باغباں یہ تو کوئی چور ہے صیاد نہیں

شور قلقل میں گم آواز اذاں ہے اے شیخ
یہ بہت خوب کہی مے کدہ آباد نہیں

ایک اک پھول کو ایک ایک کلی کو دیکھا
ہار میں ان کے ہمارا دل ناشاد نہیں

نکلی ہیں حشر میں دنیا کی پرانی باتیں
میں تو کیا میرے فرشتوں کو بھی اب یاد نہیں

نہ گری برق مگر آپ گرے غش کھا کر
یہ تو اے حضرت موسیٰ کوئی افتاد نہیں

جس سے آتا تھا نشیمن کا قفس میں کچھ لطف
تیرے قربان تری آنکھ وہ صیاد نہیں

دل سے نکلی ہے یہ دل ہی میں رہے گی ظالم
جا کے دیوار سے ٹکرائے وہ فریاد نہیں

کام کرتا تھا جو اے چرخ ترے پردے میں
وہ نہیں کام میں تو لذت بیداد نہیں

یہ بہت ہے رہے دل پر جو حکومت قائم
آج قبضے میں اگر بصرہ و بغداد نہیں

بوئے خوں دیتے ہیں شیریں ترے مہندی لگے ہاتھ
ہاتھ میں لالے کے خون سر فرہاد نہیں

حد سے آگے نہ بڑھے دیکھیے مژگان دراز
چھیڑنے کے لئے کم نشتر فصاد نہیں

شعرا آپ کو بھی خوب بناتے ہیں ریاضؔ
سب یہ کہتے ہیں کوئی آپ سا استاد نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse