کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا

کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا
by شیخ علی بخش بیمار

کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا
چشم تر ابر نو بہار اٹھا

کھا کے غش گر پڑے کھڑے بیٹھے
بیٹھ کر اس ادا سے یار اٹھا

آتش عشق دیکھ کر مالک
الاماں الاماں پکار اٹھا

درد تعظیم مرگ کو دل میں
شب فرقت ہزار بار اٹھا

جیتے جی دور آسمانی میں
نہ زمیں سے یہ خاکسار اٹھا

ابر رحمت نے دے دیا چھینٹا
بعد مرنے کے جب غبار اٹھا

وحشت دل نے پھر نکالے پاؤں
پھر تحمل کا اختیار اٹھا

پھر جنوں فصل گل میں لایا رنگ
پھر میں ہونے کو شرمسار اٹھا

حال بیمارؔ جائے رقت ہے
مرہم دل کا اعتبار اٹھا

چور زخم جگر میں بیٹھ گیا
چارہ گر ہو کے شرمسار اٹھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse