کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں
کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں
لیک جی چاہے ہے جوں ملنے کو وہ بات نہیں
آنکھ لڑ جائے ہے یوں اب بھی تو اس کی محرم
لیک نظروں میں وہ آگے کی سی سمکھات نہیں
جس جھمکڑے سے کہ نت چشم مری ٹپکے ہے
ایسی جھڑیوں سے تو برسی کبھی برسات نہیں
رونق بادہ پرستی تھی ہمیں تک جب سے
ہم نے کی توبہ کہیں نام خرابات نہیں
شیخ کی داڑھی کی جو کہئے بڑائی سچ ہے
اس سوا اور پر اک پشم کرامات نہیں
آ جو ملتا ہے تو مل لے تو کہ فرصت ہے مفت
ایک چشمک میں مری جان یہ پھر رات نہیں
رکھ تو سرگوشی کے حیلے کو تو منہ پر قائمؔ
بوسہ لینے کی اس انبوہ میں گو گھات نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |