کون سی شے میں ترا نور نہیں
کون سی شے میں ترا نور نہیں
کس جگہ پر ترا ظہور نہیں
دل سے آتی ہے یہ صدا پیہم
پاس تیرے ہوں تجھ سے دور نہیں
دل وحشی نے تھے قدم چومے
اس میں کوئی مرا قصور نہیں
خاک ہو کر غبار راہ بنو
نخوت و کبر کچھ ضرور نہیں
جلوہ دکھلا دے شاہ دیں مجھ کو
تیرے لطف و کرم سے دور نہیں
جلوۂ نور سے جلا تھا کوہ
دل مکان خدا ہے طور نہیں
اے جمیلہؔ گنہ کا کیا دھڑکا
نام اس کا مگر غفور نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |