کون کہتا ہے کہ مرنا مرا اچھا نہ ہوا
کون کہتا ہے کہ مرنا مرا اچھا نہ ہوا
فکر درماں نہ ہوئی رنج مداوا نہ ہوا
واہ اس نالہ پہ اور اتنی عدو کو نازش
بزم میں اور تو کیا حشر بھی برپا نہ ہوا
سیر گلشن سے رہے شاد ولیکن افسوس
اب کے معلوم کچھ احوال قفس کا نہ ہوا
سو گئے سنتے ہی سنتے وہ دل زار کا حال
جب کو ہم سمجھے تھے افسوں وہی افسانہ ہوا
ربط کچھ داغ و جگر کا تو ہے چسپاں عاشقؔ
ورنہ اس دور میں کوئی بھی کسی کا نہ ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |