کون ہوتے ہیں وہ محفل سے اٹھانے والے
کون ہوتے ہیں وہ محفل سے اٹھانے والے
یوں تو جاتے بھی مگر اب نہیں جانے والے
آہ پر سوز کی تاثیر بری ہوتی ہے
خوش رہیں گے نہ غریبوں کو ستانے والے
کوچۂ یار میں ہم کو تو قضا لائی ہے
جان جائے گی مگر ہم نہیں جانے والے
ہم کو کیا کام کسی اور پری سے توبہ
آپ بھی خوب ہیں بے پر کی اڑانے والے
جس قدر چاہیئے بٹھلائیے پہرے در پر
بند رہنے کے نہیں خواب میں آنے والے
کیا قیامت ہے کہ رلوا کے ہمیں اے جوہرؔ
قہقہے مار کے ہنستے ہیں رلانے والے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |