کوچۂ یار میں کچھ دور چلے جاتے ہیں
کوچۂ یار میں کچھ دور چلے جاتے ہیں
ہم طبیعت سے ہیں مجبور چلے جاتے ہیں
ہم کہاں جاتے ہیں یہ بھی ہمیں معلوم نہیں
بادۂ عشق سے مخمور چلے جاتے ہیں
گرچہ آپس میں وہ اب رسم محبت نہ رہی
توڑ جوڑ ان کے بدستور چلے جاتے ہیں
بیٹھے بیٹھے جو دل اپنا کبھی گھبراتا ہے
سیر کرنے کو سر طور چلے جاتے ہیں
قیس و فرہاد کے مرنے کا زمانہ گزرا
آج تک عشق کے مذکور چلے جاتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |