کوچے سے نکلواتے ہو عبث ہم ایسے وطن آواروں کو
کوچے سے نکلواتے ہو عبث ہم ایسے وطن آواروں کو
رہنے دو پڑے ہیں ایک طرف دکھ دیتے ہو کیوں بے چاروں کو
روگی جو تمہارے عشق کے ہیں جیتے ہیں تمہاری آس پہ وہ
دو چار دنوں پہ خدا کے لیے دیکھا تو کرو بیماروں کو
ہم شکل کسی مژگاں کے جو تھے تو دل میں ہمارے چبھنا تھا
افسوس کہ اے صحرائے جنوں چبھنا بھی نہ آیا خاروں کو
ہر شہر میں ہے سناٹا سا ہر کوچے میں خاک اڑتی ہے
جس دن ث ترے دیوانوں نے آباد کیا کہساروں کو
تھوڑی سی رہی ہے رات ضیاؔ کچھ مانگ دعائیں خالق سے
بہتر ہے اسی میں ہو جو سحر پھر شام سے گننا تاروں کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |