کچھ اور دل لگی نہیں اس بد نصیب سے

کچھ اور دل لگی نہیں اس بد نصیب سے
by داغ دہلوی

کچھ اور دل لگی نہیں اس بد نصیب سے
ہم جانتے ہیں کھیلتے ہو تم رقیب سے

میں بد گمانیوں کا بھی ممنون ہو گیا
وہ حال پوچھ لیتے ہیں میرا طبیب سے

دشمن بنائے ہیں مری قسمت نے سینکڑوں
چاہا ہے تجھ کو خلق نے میرے نصیب سے

اے ناصح شفیق رہے کچھ تو چھیڑ چھاڑ
ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے

مانند برق مثل ہوا صورت نگاہ
اکثر نکل گئے ہیں وہ میرے قریب سے

پوچھو جناب داغؔ کی ہم سے شرارتیں
کیا سر جھکائے بیٹھے ہیں حضرت غریب سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse