کچھ خار ہی نہیں مرے دامن کے یار ہیں
کچھ خار ہی نہیں مرے دامن کے یار ہیں
گردن میں طوق بھی تو لڑکپن کے یار ہیں
سینہ ہو کشتگان محبت کا یا گلا
دونوں یہ تیرے خنجر آہن کے یار ہیں
خاطر ہماری کرتا ہے دیر و حرم میں کون
ہم تو نہ شیخ کے نہ برہمن کے یار ہیں
کیا پوچھتا ہے مجھ سے نشاں سیل و برق کا
دونوں قدیم سے مرے خرمن کے یار ہیں
کیا گرم ہیں کہ کہتے ہیں خوبان لکھنؤ
لندن کو جائیں وہ جو فرنگن کے یار ہیں
وہ دشمنی کریں تو کریں اختیار ہے
ہم تو عدو کے دوست ہیں دشمن کے یار ہیں
کچھ اس چمن میں سبزۂ بیگانہ ہم نہیں
نرگس کے دوست لالہ و سوسن کے یار ہیں
کانٹے ہیں جتنے وادئ غربت کے اے جنوں
سب آستیں کے جیب کے دامن کے یار ہیں
گم گشتگی میں راہ بتاتا ہے ہم کو کون
ہے خضر جن کا نام وہ رہزن کے یار ہیں
چلتے ہیں شوق برق تجلی میں کیا ہے خوف
چیتے تمام وادیٔ ایمن کے یار ہیں
پیری مجھے چھڑاتی ہے احباب سے امیرؔ
دنداں نہیں یہ میرے لڑکپن کے یار ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |