کچھ سرگزشت کہہ نہ سکے روبرو قلم
کچھ سرگزشت کہہ نہ سکے روبرو قلم
گردش نصیب روز ازل سے ہے تو قلم
کاغذ کا تاؤ کیا ہے ترے روبرو قلم
ایسا ہی یعنی پیر کا نیزہ ہے تو قلم
ظالم نہیں تو حرف محبت سے آشنا
مشق ستم سے شرم کر اے جنگجو قلم
کیا خامہ لکھ سکے صفت زلف مشک بار
شورے کے بھی ہوئے ہیں کہیں مشک بو قلم
نامہ پر ہما ہو مرا اے شہ بتاں
لکھو گر استخواں سے بنا کر کبھو قلم
قاتل کو میں نے خط نہیں شنجرف سے لکھا
کس وجہ سے ہوا ہے تو اب سرخ رو قلم
یعنی کہ اس کے عشق میں اس دم ملا ہے یاں
منہ سے لہو لگا کے شہیدوں میں تو قلم
لکھ اور اک غزل کہ شگفتہ زمین ہے
لے کر نصیرؔ اب یہ لب آبجو قلم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |