کچھ غرض وجہ مدعا باعث

کچھ غرض وجہ مدعا باعث
by منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

کچھ غرض وجہ مدعا باعث
کیوں خفا ہو گئے ہو کیا باعث

مجھ سے روٹھے ہو کیوں بلا باعث
کیا خطا کیا قصور کیا باعث

اب کھلا یہ کہ جان جانے کا
تھا سبب دل ہی دل ہی تھا باعث

میں نے چھیڑا تھا کیوں بگڑتے نہ وہ
خفگی کی ہوئی خطا باعث

میں انہیں چاہوں وہ یہ خود چاہیں
کوئی ایسا ہو یا خدا باعث

نہیں ملتے نہ ملئے بسم اللہ
پر بتا دیجئے ذرا باعث

آج کیوں وہ بگڑ گئے ہم سے
یا الٰہی نہ کچھ کھلا باعث

مر گئے دیکھ ہم ترا انداز
ہے فضا کی تری ادا باعث

جب کہا میں نے آئیے مرے پاس
دو گھڑی کے لیے کہا باعث

تم حسیں ہو تو چاہتے ہیں تمہیں
یہی باعث ہے اور کیا باعث

کر لیا کیسا آپ کو تسخیر
سحرؔ ہوں ورنہ اور کیا باعث

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse