کچھ لاگ کچھ لگاو محبت میں چاہئے
کچھ لاگ کچھ لگاو محبت میں چاہئے
دونوں طرح کا رنگ طبیعت میں چاہئے
یہ کیا کہ بت بنے ہوئے بیٹھے ہو بزم میں
کچھ بے تکلفی بھی تو خلوت میں چاہئے
وہ ابتدائے عشق میں حاصل ہوئی مجھے
جو بات انتہائے محبت میں چاہئے
آئیں گے بے شمار فرشتے عذاب کے
میدان حشر غیر کی تربت میں چاہئے
کچھ تو پڑے دباؤ دل بے قرار پر
پارا بھرا ہوا مری تربت میں چاہئے
معشوق کے کہے کا برا مانتے ہو داغؔ
برداشت آدمی کی طبیعت میں چاہئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |