کچھ منہ سے دینے کہہ وہ بہانے سے اٹھ گیا
کچھ منہ سے دینے کہہ وہ بہانے سے اٹھ گیا
حرف سخاوت آہ زمانے سے اٹھ گیا
ہے اس کے دیکھنے کی ہوس کیا غضب کہ آہ
جو تند خو ٹک آنکھ اٹھانے سے اٹھ گیا
پوچھی جو اس سے میں دل صد چاک کی خبر
الجھا کے اپنی زلف وہ شانے سے اٹھ گیا
کہیو صبا جو ہووے گزر یار کی طرف
دل سب طرف سے آپ کے جانے سے اٹھ گیا
پایا جو مضطرب مجھے محفل میں تو وہیں
شرما کے کچھ وہ اپنے بیگانے سے اٹھ گیا
ہوتا تھا اپنے جانے سے جس کو قلق سو ہائے
گھبرا کے آج کیا مرے آنے سے اٹھ گیا
ہمدم نہ مجھ کو قصۂ عیش و طرب سنا
مدت سے دل کچھ ایسے فسانے سے اٹھ گیا
جب تک تو آئے آئے کہ دنیا ہی سے کوئی
لے جان تیرے دیر لگانے سے اٹھ گیا
جرأتؔ ہم اس زمین میں کہتے ہیں اور شعر
ہر چند جی سخن کے بڑھانے سے اٹھ گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |