کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے
کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے
چتون ہے کہ تلوار لئے سر پہ کھڑی ہے
آنے کو ہے کوئی جو للک پھر سے ہوئی ہے
ڈوبے ہوئے سورج کی کرن پھوٹ رہی ہے
ہے پگھلی ہوئی آگ کہ جلتے ہوئے آنسو
لوکا وہیں اٹھا ہے جہاں بوند پڑی ہے
جب سکھ نہیں جینے میں تو اک روگ ہے جینا
سانس آئی ہے جب چوٹ کلیجے میں لگی ہے
کل کیا کہیں دیکھیں وہ بدلتی ہوئی چتون
سو آسرے ٹوٹے ہیں تو اک آس بندھی ہے
میں کچھ نہ کہوں اور وہ جو چاہے کہے جائیں
اب روکی ہوئی سانس گلا گھونٹ رہی ہے
کہنے کو تو آتی ہے انہیں ہاں بھی نہیں بھی
ہو جس پہ بھروسہ نہ وہی ہے نہ یہی ہے
ابھرے ہوے چھالے ہیں ہے روکا ہوا آنسو
بس بجھ چکی یہ آگ کہ پانی سے لگی ہے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |