کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے

کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے
by میر محمدی بیدار

کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے
جس طرف کیجئے نظر تو ہے

اختلاف صور ہیں ظاہر میں
ورنہ معنیٔ یک دگر تو ہے

ہے جو کچھ تو سو تو ہی جانے ہے
کوئی کیا جانے کس قدر تو ہے

کیا مہ و مہر کیا گل و لالہ
جب میں دیکھا تو جلوہ گر تو ہے

کس سے تشبیہ دیجئے تجھ کو
سارے خوباں سے خوب تر تو ہے

وہ تو بیدارؔ ہے عیاں لیکن
اس کے جلوہ سے بے خبر تو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse