کچھ نہ کچھ رنج وہ دے جاتے ہیں آتے جاتے

کچھ نہ کچھ رنج وہ دے جاتے ہیں آتے جاتے
by ظہیر دہلوی
299902کچھ نہ کچھ رنج وہ دے جاتے ہیں آتے جاتےظہیر دہلوی

کچھ نہ کچھ رنج وہ دے جاتے ہیں آتے جاتے
چھوڑ جاتے ہیں شگوفے کوئی جاتے جاتے

شوق بن بن کے مرے دل میں ہیں آتے جاتے
درد بن بن کے ہیں پہلو میں سماتے جاتے

خیر سے غیر کے گھر روز ہیں آتے جاتے
اور قسمیں بھی مرے سر کی ہیں کھاتے جاتے

ہائے ملنے سے ہے ان کے مجھے جتنا اعراض
وہ اسی درجہ نظر میں ہیں سماتے جاتے

نہیں معلوم وہاں دل میں ارادہ کیا ہے
وہ جو اس درجہ ہیں اخلاص بڑھاتے جاتے

لو مرے سامنے غیروں کے گلے ہوتے ہیں
لطف میں بھی تو مجھی کو ہیں ستاتے جاتے

آج رکتی ہے مریض غم الفت کو شفا
چارہ گر درد بھی جائے گا تو جاتے جاتے

یہی ہم دم مجھے پیغام قضا دیتے ہیں
یہ جو سینے میں دم چند ہیں آتے جاتے

یوں ہی آخر تو ہوا نام عزا کا بدنام
آئے تھے آ کے جنازہ بھی اٹھاتے جاتے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.