کچھ نہ کچھ رنج وہ دے جاتے ہیں آتے جاتے
کچھ نہ کچھ رنج وہ دے جاتے ہیں آتے جاتے
چھوڑ جاتے ہیں شگوفے کوئی جاتے جاتے
شوق بن بن کے مرے دل میں ہیں آتے جاتے
درد بن بن کے ہیں پہلو میں سماتے جاتے
خیر سے غیر کے گھر روز ہیں آتے جاتے
اور قسمیں بھی مرے سر کی ہیں کھاتے جاتے
ہائے ملنے سے ہے ان کے مجھے جتنا اعراض
وہ اسی درجہ نظر میں ہیں سماتے جاتے
نہیں معلوم وہاں دل میں ارادہ کیا ہے
وہ جو اس درجہ ہیں اخلاص بڑھاتے جاتے
لو مرے سامنے غیروں کے گلے ہوتے ہیں
لطف میں بھی تو مجھی کو ہیں ستاتے جاتے
آج رکتی ہے مریض غم الفت کو شفا
چارہ گر درد بھی جائے گا تو جاتے جاتے
یہی ہم دم مجھے پیغام قضا دیتے ہیں
یہ جو سینے میں دم چند ہیں آتے جاتے
یوں ہی آخر تو ہوا نام عزا کا بدنام
آئے تھے آ کے جنازہ بھی اٹھاتے جاتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |