کھویا ہوا پیار

کھویا ہوا پیار
by اعظم کریوی
319623کھویا ہوا پیاراعظم کریوی

درندر بابو آرام کرسی پر لیٹے ہوئے کوئی اخبار پڑھ رہے تھے۔اسی وقت ایک بوڑھے نوکر نے آکر گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’سرکار!‘‘

’’کیا ہے؟‘‘

صدر پھاٹک پر ایک بھکاری ۔۔۔ گھبراہٹ کے مارے اس کی آواز رک گئی۔

’’کیا ہے جی۔ گھبرانے کی کیا بات ہے۔‘‘

’’بیہوش ہوکر گر پڑا ہے‘‘ نوکر نے کسی طرح اپنی بات پوری کی۔

’’تو میرے پاس کیوں دوڑے آئے اس کی کچھ مدد کرنی چاہیے تھی۔‘‘ اتنا کہہ کر درندر بابو تیزی سے پھاٹک کی طرف چلے۔ بھکاری کو دیکھتے ہی خداترس بابو روپڑے۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور بھکاری کے سر کو اپنے زانو پر رکھ کر کہا۔ جلدی سے پانی اور دوائی والا بکس اٹھالاؤ۔‘‘

چند منٹ کے بعد بھکاری نے آنکھیں کھول دیں، ان میں حسرت و یاس کا چشمہ ابل رہا تھا۔ درندر بابو اسی میں ڈوبتے ہوئے بولے۔ ’’اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘

’’اب اچھا ہوں‘‘ کہتا ہوا وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا مگراٹھ نہ سکا۔

’’کچھ کھاؤگے۔‘‘

بھکاری کچھ نہ بولا لیکن اس کی آنکھیں سب کچھ کہہ گئیں۔

نوکر کی گھبراہٹ اب تک دور نہ ہوئی تھی، اس کی طرف دیکھ کر درندر بابو نے کہا ، سکھو! اب کیوں کانپ رہے ہو۔ جاؤ فوراً کچھ کھانے کو لے آؤ ، اور ہاں ’’لکھنا‘‘ کہاں لاپتہ رہتاہے۔ اس سے کہو کہ پھاٹک والی کوٹھری میں ایک کھاٹ بچھادے۔‘‘

لکھنا بابو صاحب کا خاص نوکر تھا اور اسی وجہ سے وہ کام تو کم کرتا تھا لیکن باتیں بہت بناتا تھا۔ دوسرے نوکر چاکر اس سے تنگ رہتے تھے۔ سکھو سیدھا سادا محنتی نوکر تھا لیکن لگھنا کی حرکتوں سے وہ بھی اب پریشان رہتا تھا۔ آج موقع پاکر کہنے لگا ۔ سرکار کے ڈر سے کہیں بھاگ کر چھپ گیا ہوگا ۔ اسی کے دھکے سے تو یہ بیچارا بھکاری گرا ہے ۔ اس کی بیہوشی سے تو میں بہت ڈر گیا تھا کہ کہیں جان نہ نکل گئی ہو ۔ بھگوان میں نے بچایا نہیں تو اس وقت سب گرفتار ہوجاتے۔‘‘ اتنا کہہ کر سکھو بھوجن لانے چلا گیااور بابو صاحب اپنا غصہ دباتے ہوئے بھکاری سے کہنے لگے ۔ اس کے لیے مجھے معاف کرنا بھائی۔ میرا نوکر لگھنا آدمی نہیں بلکہ راکشش ہے ۔ کہاں چوٹ لگی ہے؟‘‘

بھکاری نے کمزور آواز میں جواب دیا ۔ ’’سرکار پریشان نہ ہوں میرے کہیں چوٹ نہیں لگی۔‘‘

’’کیا لگھنا نے مارا پیٹا بھی ہے۔‘‘

’’نہیں سرکار! اس کا کچھ قصور نہیں۔ فاقہ کرنے سے میں بہت کمزور ہوگیا تھا۔ میرے پاؤں ڈگمگا رہے تھے۔ آج وہ میرے بدن کا بوجھ نہ سنبھال سکے۔ بس اور کوئی بات نہیں۔‘‘

’’تم مجھ سے چھپا رہے ہو۔ سچ بتاؤ کیا اس نے تم کو دھکا نہیں دیا۔‘‘

بھکاری کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے، بڑی مشکل سے اس نے کہا، سرکار! وہ مجھ کو پھاٹک سے باہر نکال رہا تھا۔ اس کی ٹھوکر سے نہیں بلکہ اپنے پاپی پیٹ کی ٹھوکر سے میں گر پڑا۔ اسےآپ کچھ نہ کہیے گا۔‘‘

درندر کا دل بھر آیا وہ بھکاری کے سر پر محبت سے اپنا ہاتھ پھیرنے لگے۔

سکھو نےآکر کہا ۔ سرکار! اب اس کو کوٹھری میں پہنچانا چاہئے۔ کچھ کھاپی کر آرام کرلے۔‘‘

بھکاری شرماتا ہوا کھانا کھا رہا تھا اور سکھو محبت آمیز باتوں سے اس کاجی بہلا رہا تھا، اسی وقت لگھنا غصہ میں بھرا ہوا کوٹھری میں داخل ہوا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولا ۔ سکھو دادا!مالک سے میری شکایت کرکے تم خوش نہیں رہ سکتے۔ یاد رکھنا یہ تم نے اپنے حق میں اچھا نہیں کیا ۔‘‘

وہ بھکاری کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اور کہنے لگاؤ ’’اب کبھی کسی کے ساتھ ایسا سلوک نہ کروں گا مجھے معاف کردو بھیا۔‘‘

بھکاری اور سکھوں دونوں دنگ رہ گئے۔

تین چار ہی دن کے آرام و آسایش سے بھکاری کا مرجھایا ہوا چہرہ کھل اٹھا۔ اس نے درندر بابو سے کہا ۔ ’’مالک! اب جانے کی اجازت دیجیے۔‘‘

کہاں جانا چاہتے ہو سنتو! درندر بابو نے محبت آمیز لہجہ میں دریافت کیا۔

’’یہ پیٹ جہاں لے جائے۔‘‘

’’کیا تم کو یہاں کوئی تکلیف ہے؟‘‘

’’تکلیف تو کچھ بھی نہیں سرکار ، مگر اس طرح مفت کی روٹی کھانا میں پسند نہیں کرتا۔ میں نوکری کی تلاش میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘

اگر میں تم کو نہ جانے دوں؟

سنتو سرجھکائے کھڑا رہا کچھ بولا نہیں۔

’’کیا تم میرے یہاں نوکری نہیں کرسکتے۔‘‘

سنتو کا دل خوشی کے مارے اچھل پڑا۔ اس نے احسان بھری نظروں سے بابو کو دیکھا اور پھر سرجھکالیا۔

’’چوکیداری کا کام کرسکتے ہو۔‘‘

’’جی ہاں‘‘

’’کیا تنخواہ لوگے؟‘‘

’’اس کی کیا ضرورت ہے سرکار! اس دنیا میں میرا اپنا کوئی نہیں۔ کھانے بھر کو دے دیجیے گا۔ کبھی کبھی تن ڈھانکنے کو پھٹے پرانے کپڑوں کا انتظام کردیجیے گا۔ بس اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہ چاہیے۔‘‘

’’کپڑے اور خوراک کے علاوہ میں تم کو دس روپے مہینہ دوں گا۔ اپنی اسی کوٹھری میں رہنا اور رات کو چوکیداری کا کام کرنا۔‘‘

سنتو خوشی کے مارے بابو صاحب کے قدموں پر گر پڑا اور بولا ’’سرکار! اس احسان کا بدلہ میں کبھی نہیں دے سکتا۔‘‘

اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد کا ذکر ہے۔ ساون کی اندھیری رات تھی، چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سنتو ’’جاگتے رہو‘‘ کا نعرہ بلند کرتا ہوا درندر بابو کی کوٹھی کے چاروں طرف گھوم گھوم کر پہرہ دے رہا تھا۔ یکبارگی وہ ایک کھڑی کے سامنے چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ وہاں سے اس نے دیکھا ۔ کمرہ میں ایک سندری گھٹنے ٹیکے پرارتھنا کر رہی ہے، اس کی آنکھیں بند تھیں لیکن بہتے ہوئے آنسو اس کے گالوں پر جھلک رہے تھے ۔ ہاتھ جوڑ کر وہ جانے کیا دعا مانگ رہی تھی ۔

حسن و شباب کی اس جیتی جاگتی تصویر کے سامنے جوان چوکیدار خود کو بھول گیا ۔ سب کچھ بھول کر وہ وہیں کھڑا رہا، تھوڑی دیر میں اس نے دیکھا کہ ایک اور دوسری حسینہ اس پرارتھنا کرنے والی لڑکی کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی ۔ کچھ دیر خاموش رہ کر اس نے کےکہا ’’مایا تم کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘

چوکیدار کی چھاتی رنج و غم سے دھڑکنے لگی ۔ دعا میں محو مایا چونک پڑی، اس نے اپنے دل کو سنبھالتے ہوئے کہا ۔ ’’مالکن، کچھ تو نہیں!‘‘

’’نہیں میری پیاری مایا ۔‘‘ مالکن، نے اٹھاکر اسے اپنی چھاتی سے لگاتے ہوئے پوچھا ۔ سچ بتا تو اس طرح کس خیال میں ڈوبی رہتی ہے۔‘‘

مایا اس کا کوئی جواب نہ دے سکی۔ ہجوم جذبات سے اس کی زبان بند تھی۔

’’تجھے میرے سر کی قسم! سچ بتا تو ابھی کیوں رو رہی تھی؟‘‘

’’اپنی قسمت پر! کہہ کرمایا سسکنے لگی۔‘‘

مالکن کا دل بھر آیا اس نے محبت بھری آواز میں کہا ۔ بہن! تو اپنے دل کی بات مجھ سے نہ چھپا، صاف صاف بتادے، دھیان اور فکر کی گہرائی میں ڈوب کر تو کس کو تلاش کر رہی تھی۔‘‘

’’کھویا ہوا پیار!‘‘ کہہ کر مایا مالکن سے اور بھی لپٹ گئی۔ دونوں وہاں سے چلی گئیں اور کمرہ خالی ہوگیا۔

ٹھیک اسی وقت بے خبر سنتو کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا، وہ چونک کر اچھل پڑا اور اپنی لاٹھی سنبھالتا ہوا بولا ۔ ’’کون؟‘‘

’’میں ہوں اچھی طرح پہچان لو۔‘‘

’’کون؟ لکھن۔‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

’’اس وقت تم یہاں کیسے آئے۔‘‘

’’تمہاری حرکتیں دیکھنے کو آیا ہوں۔‘‘

’’میری حرکت۔‘‘

’’جی ہاں، آدھی رات کے وقت کھڑکی کھول کر اندر کی عورتوں پر نظر ڈالنا آپ ہی کی حرکت ہے نہ؟‘‘

سنتو کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی معلوم ہوئی، وہ گھبراکر بول اٹھا ۔ لکھن بھیا! ایشور کے لیے ایسے تہمت نہ لگاؤ۔ بھلا مجھ غریب کو ستاکر کیا پاجاؤگے۔‘‘

ایسی چکنی چپڑی باتوں سے بڈھے سکھو ہی کو بیوقوف بنایا کرو۔ میں نے تو سچ کا ساتھ دینا سیکھا ہے۔ منھ میں رام رام اور بغل میں چھری۔ ’’میرا دستور نہیں۔ میں نے جو کچھ دیکھا ہے مالک سے جاکر صاف صاف کہہ دوں گا۔ اس کے بعد اس کی مرضی۔‘‘

سہم کر سنتو نے پوچھا ۔ ’’آخر تم نے کیا دیکھا ہے؟‘‘

’’یہی کہ تم ان کی عورت کو جو ہماری مالکن ہیں، بُری نظر سے دیکھ رہے تھے۔‘‘ لکھن! ’’بھگوان سے ڈرو۔‘‘

’’بھگوان سے ڈرے وہ جو اپنے اَن داتا (پرورش کرنے والے) کے ساتھ نمک حرامی کرے۔‘‘

’’وہی تو میں کہہ رہا ہوں۔‘‘

’’کہہ کس سے رہے ہو ۔ اپنےآپ ہی کو کیوں نہیں کہتے۔ دغاباز! چور! بے ایمان!!!‘‘

’’بس اب چپ ہی رہنا لکھن!‘‘

’’نہیں تو تم کیا کرلوگے؟‘‘

ٹھیک ٹھیک تو نہیں کہہ سکتا مگر کچھ نہ کچھ ضرور کر بیٹھوں گا۔‘‘

’’اچھی بات ہے صبح ہونے دو حسرت نکال لینا۔‘‘

’’پھانسی تیار کرالینا۔‘‘

’’مالکن خود تمہاری بدمعاشی اور بری نظر کی شکایت مالک سے کر چکی ہیں۔ انھیں نے تو مجھ کو تمہاری دیکھ بھال کے لیے تعینات کیا تھا۔ تمہاری ساری قلعی کھل گئی۔ پھانسی اگر تیار نہ ملے گی تو لاتوں اور جوتوں کی کمی نہ رہے گی۔ گھبرانا نہیں۔‘‘

سنتو کا سر چکرانے لگا کیونکہ دو ایک بار پہلے بھی وہ کھڑکی کی راہ سے اپنی نظر کمرہ تک پہنچا چکا تھا۔ ممکن ہے کہ مالکن یا ان کی نوکرانی نے دیکھ لیا ہو۔ وہ تھر تھراکر وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور لکھن تیزی سے اپنے مالک کے کمرہ کی طرف بڑھا۔ سنتو نے گھبراکر پکارا ۔ ’’لکھن بھیا!‘‘

لکھن کھڑا ہوگیا۔ سنتو نے اس کے پاس جاکر کہا ۔ مجھے معاف کردو۔‘‘

لکھن کی منھ مانگی مراد مل گئی۔ اکڑ کر بولا ۔ ’’میں کیا معاف کردو۔‘‘

’’میری عزت اب تمہارے ہاتھ ہے تمہیں بچاسکتے ہو۔‘‘

’’خیر مجھ کو تم پر رحم معلوم ہوتا ہے اب اگر تم اپنا بھلا چاہتے ہو یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ تمہاری خیریت نہیں۔‘‘

’’کیا سچ مچ مالک اور مالکن کو مجھ پر شک ہوگیا ہے۔‘‘

لکھن کا دل دھڑکنے لگا، اس نے سنبھل کر کہا ۔یقین نہ ہو تو رات بھر ٹھہر جاؤ۔ سویرے سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔‘‘

’’اچھا میرا کہا سنا معاف کرنا‘‘۔ کہہ کر سنتو آہستہ آہستہ اپنے کمرہ کی طرف چلا گیا۔

پہر دن چڑھ آیا تھا لیکن سنتو کی راہ پر گویا روشنی ہی نہ تھی۔ جب انسان کے بُرے دن آتے ہیں تو اسے چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی دکھائی دیتی ہے۔ شہر کے باہر، سڑک سے ذرا دور ہٹ کر ایک پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوا سنتو سوچ رہا تھا کہ اب اسے کہاں جانا چاہیے۔ یکبارگی شہر کی طرف سے کئی پولیس کے سوار آتے دکھائی دیے۔ سنتو کانپ اٹھا اور بیہوش ہوکر زمین پر گرپڑا۔

ہوش آنے پر اس نے دیکھا کہ وہ پولیس والوں سے گھرا ہوا ہے۔ لکھن بھی موجود ہے اس کے علاوہ اس کے مالک درندر بابو اس کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

داروغہ نے پوچھا ۔ ’’کیا تم کو معلوم ہے کہ تم کیوں گرفتار کیے گئے ہو۔‘‘

’’جی نہیں‘‘

’’سیندہ لگانے اور چوری کرنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے ہو۔‘‘

’’سنتو نے نیچی نگاہ سے درندر بابو کی طرف دیکھا اور کہا۔ ہاں سرکار!‘‘

’’اس چالاکی سے اب کام نہیں چلے گا۔‘‘ داروغہ نے ہنٹر دکھاتے ہوئے کہا۔ تین ہزار کے زیورات چراکر اپنے بھولے پن کا ناٹک تم نہیں دکھا سکتے۔ بتاؤ تمہارے اور ساتھی کہاں گئے؟‘‘

’’میرا کوئی ساتھی نہیں حضور!‘‘ سنتو نے رو کر جواب دیا۔

’’تو بتاؤ سیندہ لگانے کے اوزار اور گہنوں کا صندوق کہاں چھپایا ہے۔‘‘

سنتو ہکا بکا ہوکر درندر بابو کی طرف دیکھنےلگا گویا خود ان سے اس کا جواب دلوانا چاہتا ہے۔

درندر بابو نے بے رخی سے کہا۔ میری طرف تاکنےسے کیا فائدہ۔ تم مار آستین نکلے۔ اگر اپنی خیریت چاہتے ہو تو سچا حال بتادو۔

سنتو نے مایوس ہوکر کہا ’’تو کیا سرکار کو بھی مجھ پر شک ہے؟‘‘

’’جی نہیں ۔ میرے اوپر‘‘ کہہ کر داروغہ نے سنتو پر ایسا ہنٹر مارا کہ وہ تلملا اٹھا۔

’’ایشور جانتا ہے ۔‘‘

داروغہ نے قطع کلام کرکے ڈانٹ کر کہا۔ زیادہ بک بک کروگے تو مارتے مارتے کچومر نکال دوں گا۔ تم ایسے بدمعاشوں کو میں خوب پہچانتا ہوں۔‘‘

جب میرے مالک خود مجھ کو چور سمجھتے ہیں ۔ سنتو نے آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

’’تو میرے لیے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔ میں مجرم بن کر سب طرح کی تکلیفیں سہنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

درندر بابو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ لیکن داروغہ نے ڈانٹ کر کہا ، مگر پہلے یہ تو بتادے کہ چوری کا مال کہاں ہے؟

سنتو نے نڈر ہوکر جواب دیا ۔ کسی طرح بھی مجھ سےآپ اس بات کا پتہ نہیں چلا سکتے۔ آپ کا جو جی چاہے کیجیے۔ مارنے پیٹنے سے نہ کام چلے تو کوئی دوسری کارروائی کیجیے۔‘‘

’’لے چلو اسے اندھیری کوٹھری میں۔‘‘ سپاہیوں کو حکم دے کر داروغہ جی کھڑے ہوگئے اور انھیں کے ساتھ درندر بابو سر جھکا کر چل دیے۔

آدھی رات کا وقت رہا ہوگا سب سو رہے تھے لیکن لکھن کی آنکھیں بار بار کمرہ کے باہر جھانک رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ کسی گہری فکر میں ہے، وہ باہر نکل آیا اور بڑی بے چینی کے ساتھ ٹہلنے لگا۔ دیر تک وہ اسی طرح دل بہلانے کی کوشش کرنے کے بعد پھر وہ اپنے کمرہ میں گھس گیا۔ کواڑ بند کرکے ایک لمبی سانس لی اور بستر پر لیٹ گیا۔ اسی وقت باہر کسی نے دروازہ پر تھپکی دی۔ اس کا دل دھڑکنے لگا لیکن فوراً ہی امید کا دامن تھام کر وہ اٹھ بیٹھا اور بولا ’’کون؟‘‘ ’’میں ہوں‘‘۔ ایک شیریں آواز نے جواب دیا۔

لکھن کے جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کواڑ کھول کر آہستہ سے کہا ۔ ’’بڑا انتظار دکھایا۔‘‘

’’کیا تم ناامید ہوچکے تھے؟‘‘

’’ہاں مایا! میں نے تو سمجھ لیا تھا کہ میری مراد پوری نہ ہوگی۔‘‘

خیر اب اتنا تو سمجھ گئے کہ تمہاری مراد پوری ہوگئی۔ مایا نے مسکراکر کہا ۔ ’’مگر ۔۔۔‘‘

’’اب اگر مگر کچھ نہیں‘‘ کہہ کر لکھن نے مایا کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔

’’وہ تیزی سے پیچھے ہٹ گئی اور بولی۔ ٹھہرو! ابھی مجھے اطمینان نہیں ہوا میں تمھیں آزمانا چاہتی ہوں۔‘‘

لکھن سناٹے میں آگیا اور کہا ۔ اتنے دنوں کی پوجا کا کیا یہی پھل ملے گا؟ اب کیا آزمانا چاہتی ہو۔

مایا نے تیوری چڑھاکر کہا کہ وعدہ کرو کہ بغیر میری اجازت کے تم مجھے چھونے کی کوشش نہ کرو گے۔

’’اچھا سرکار وعدہ کرتا ہوں، اب تو خوش ہوئیں۔‘‘

’’بس میں یہی چاہتی تھی۔‘‘ مایا نے آنکھیں مٹکاکر مسکراتے ہوئے کہا۔ لیکن جیسے ہی میں دیکھوں گی کہ تم وعدہ پر قایم نہیں رہے، میں تمہارا ساتھ چھوڑ دوں گی سمجھے۔؟

’’جیسی سرکار کی مرضی‘‘۔ لکھن نے گھٹنے ٹیک کر کہا ۔ ’’لو اب اندر آجاؤ۔‘‘ مایا نے کمرہ کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’نیپال راج میں پہنچ کر تو پھر کوئی ڈر کی بات نہ رہے گی۔‘‘

’’بالکل نہیں‘‘ لکھن نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔ ’’وہاں ہم دونوں چین کریں گے۔‘‘

’’پردیس میں چین و آرام سے رہنے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘

’’اس سے بے فکر رہو، وہ محنت کا کام میں یہیں کرچکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر لکھن نے مایا کے سامنے ایک چھوٹی سی گٹھری رکھ دی۔ ہمیں چین سے بسر کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔

’’اس میں کیا ہے‘‘ مایا نے گٹھری کو اٹھاکر پوچھا۔

’’وہی‘‘ لکھن نے مسکراکر کہا ۔ جس کی مدد سے میں تم کو ساری عمر سُکھ کی رانی بناکر رکھوں گا۔

خوشی کے مارے مایا کا چہرہ کھل اٹھا ۔ چلو اب دیر کرنے کی ضرورت نہیں۔

مایا اور لکھن شہر کے اسٹیشن کو چھوڑ کر رات کے سناٹے میں شہر کے باہر والے چھوٹے اسٹیشن کی طرف جلدی جلدی قدم بڑھاتے ہوئے جارہے تھے۔ رات کی تاریکی گناہوں کی پردہ پوش ہوتی ہے۔ لکھن بڑے اطمینان سے چپ چاپ مایا کے آگے آگے چل رہا تھا۔ یکبارگی کوئی سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور ڈانٹ کر کہا ۔ ’’کہاں جا رہے ہو ٹھہرو۔‘‘

لکھن کے ہوش ار گئے۔ گھبراکر بول اٹھا ۔ ’’تم سے کیا مطلب ہم کہیں بھی جاتے ہوں۔ بس سامنے سے ہٹ جاؤ۔‘‘

’’اچھی بات ہے‘‘ کہہ کر راستہ روکنے والے نے سیٹی بجادی اور دیکھتے ہی دیکھتے ’’ٹارچ‘‘ کی روشنی سے سڑک پر اجالا ہوگیا۔ اب دونوں پولیس کے جوانوں سے گھرے تھے۔ لکھن نے انھیں کے ساتھ سکھو اور اپنے مالک درندر بابو کو بھی دیکھا۔ سکھو نے ڈر کر مایا کو گلے سے لگالیا اور محبت بھری آواز میں کہا ۔ ’’بیٹی! تو نے تو وہ کام کردکھایا جو کسی کے کیے نہ ہوتا۔‘‘

بیٹی نے ادب سے جواب دیا۔ اگر تم مدد نہ کرتے تو دادا مجھ سے یہ کام ہرگز نہ ہوسکتا۔

داروغہ نے لکھن کی گٹھری چھین کر اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔

صبح ہوتے ہی درندر باتو تھانہ میں پہنچے اور سنتو کو حوالات سے چھڑالائے۔ معافی مانگتے ہوئے درندر بابو نے کہا۔ ’’ایشور جانتا ہے سنتو! اگر میرے بس کی بات ہوتی تو تم پر ہرگز مصیبت نہ آتی۔‘‘

’’اب اس بات کو بھول جائیے بابوجی! انت بھلا تو سب بھلا۔ (انجام اچھا تو سب اچھا)۔ بھگوان کی یہی اِچھا (مرضی) تھی اسے کون روک سکتا تھا۔

’’اچھا سنتو! یہ تو بتاؤ کہ تم اس رات کو چپکے سے بھاگ کیوں گئے؟‘‘

’’لکھن کی شیطانی سے پریشان ہوکر۔‘‘ سنتو نے سر جھکاکر آہستہ سے جواب دیا۔

’’تم میرے پاس کیوں نہیں چلے آئے۔‘‘

’’مصیبت کے وقت عقل ماری جاتی ہے سرکار!‘‘

’’ایشور چاہے گا تو اب کبھی ایسا موقع نہ آئے گا۔‘‘

’’لیکن اب تو ۔۔۔‘‘

’’یہاں نہیں رہوگے۔‘‘

’’کبھی کبھی سرکار کے پاؤں چھونے آجایا کروں گا۔‘‘

’’یہ کیوں؟‘‘

’’میری قسمت میں خوشی نہیں لکھی۔‘‘

درندر بابو نے سمجھا کہ سنتو کا دل ٹوٹ گیا ہے، بولے ۔ ’’معلوم ہوتا ہے تم نے اب تک مجھے معاف نہیں کیا۔‘‘

سنتو نے درندر بابو کے قدموں پر سررکھتے ہوئے کہا ’’آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں سرکار! میں تو آپ کو خواب میں بھی تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا ۔ لیکن افسوس ہے کہ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ جانے کے لیے مجبور ہوں۔‘‘

سنتو کواٹھاتے ہوئے درندر بابو نے کہا ۔ ’’اصل بات کیا ہے کچھ بتاؤ تو سہی۔‘‘

’’میرا دل قابو میں نہیں ہے۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے کوئی غلطی نہ ہوجائے۔‘‘

’’نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ میں تمہارے دل کو اب قابو میں رکھوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر مایا یکبارگی آکر سنتو کے سامنے کھڑی ہوگئی۔

سنتو کا سر جھک گیا اس کا بدن کانپنے لگا۔

درندر بابو حیرت سے ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے۔ بوڑھا سکھو کھڑا کھڑا مسکرا رہا تھا۔

مایا نے سنتو کے پاؤں پر سرجھکا کر کہا ’’ہردیشور! میری جیون ادھار! کیا اب بھی مجھے نہ اپناؤگے۔‘‘

سنتو اسی طرح کھڑا رہا، بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’مجھ پاپی کو چھوکر تو خود کو پاپن نہ بنا مایا! مجھے چھوڑ دے۔‘‘

’’پرانی باتیں اب بھول جاؤ میرے دیوتا!‘‘ مایا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔ ’’ہم دونوں کو اپنی غلطیوں کی کافی سزا مل چکی۔‘‘

’’تو تم نے مجھے معاف کردیا۔‘‘

’’اور میری طرف سے تمہارا دل صاف ہوگیا۔‘‘

’’ہاں‘‘ کہہ کر سنتو نے مایا کی طرف پیار کی نظروں سے دیکھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ مایا کو چھاتی سے لگالے مگر درندر بابو کے ادب سے رک گیا۔

’’میرے سوامی! کہہ کر مایا فرطِ خوشی سے روپڑی۔

سکھو کا چہرہ خوشی کے مارے کھل اٹھا۔ اس نے کہا ۔ ’’جاؤ بیٹی! سنتو کے کھانے پینے کا انتظام کرو۔‘‘

سکھو دادا کا پاؤں چھوکر مایا لجاتی ہوئی اندر چلی گئی۔

سنتو نے خوش ہوکر کہا ۔ ’’اب کہیں نہ جاؤں گا سرکار!‘‘

درندر بابو جو تصویر حیرت بنے ہوئے تھے بولے۔ معاملہ کیا ہے؟ میں اب تک کچھ بھی نہیں سمجھ سکا سکھو!

’’اب تک سرکار نے نہیں سمجھا؟‘‘ سکھو نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سنتو میرا داماد ہے۔‘‘

’’اوہو تو کیا مایا تمہاری بیٹی ہے۔‘‘

’’میں نے جب اس کو گنگا مائی سے نکال کر پرورش کی تو وہ میری بیٹی ہی ہوئی۔‘‘

سنتو نے احسان مند نظروں سے سکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ کیا مایا گنگا میں ڈوب گئی تھی دادا!‘‘

’’ہاں بھیا‘‘ بوڑھے نے کہا ۔ ’’اگر میری نظر نہ پڑتی تو یہ ڈوب ہی جاتی۔ پانی سے نکال کر بہت سمجھا بجھا کر یہاں لے آیا۔ میری مالکن اس کو اپیی چھوٹی بہن کی طرح رکھتی ہیں ۔ کیا تم دونوں میں کچھ لڑائی ہوگئی تھی بھیا ۔ بات کیا تھی؟‘‘

’’کچھ نہیں دادا! بالکل معمولی بات تھی۔‘‘ سنتو نے شرماکر جواب دیا۔

’’اس کی ایک غلطی پر مجھے مایا پر کچھ شک ہوگیا تھا۔‘‘

’’اب کبھی ایسی غلطی نہ کرنا‘‘۔ درندر بابو نے کہا۔ ’’تمہاری عورت بڑی نیک چلن اور شریف ہے۔ سچ مچ دیوی ہے دیوی۔‘‘

’’ہاں بھیا۔‘‘ سکھو نے بھی محبت آمیز لہجہ میں کہا۔ ’’اس کو یہاں رہتے آج پانچ برس ہوگئے ہیں لیکن کیا مجال کہ گھر سے باہر جھانکا ہو یا بُری نظروں سے کسی مرد کو تاکا ہو۔ ہاں مجھ کو البتہ اپنے باپ کی طرح مانتی ہے۔‘‘

’’توآج سے میں بھی آپ کا بیٹا ہوا۔‘‘ کہہ کر سنتو، سکھو کے قدموں پر گر پڑا۔

’’اور تم دونوں کو پاکر آج سے میں بھی بھکاری سے خوش قسمت ہوگیا۔ بوڑھے نے سنتو کو اٹھاکر گلے سے لگاتے ہوئے کہا، مجھ لٹے ہوئے بدقسمت بڈھے کے اب تمہیں سب کچھ ہو۔‘‘

درندر بابو خوش خوش اپنی بیوی کے پاس پہنچے اور بولے ’’ایسی خوش خبری سناؤں کہ پھڑک جاؤ۔‘‘

تارانے پیار کی نظروں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر کہا ’’کیا؟‘‘

’’مایا کہاں گئی۔‘‘

’’کیوں؟ کیا اسی کے متعلق کوئی بات ہے؟‘‘

’’ہاں! سنتو اس کا شوہر ہے۔‘‘

’’سچ کہنا ۔ مذاق تو نہیں کر رہے ہو۔‘‘

’’تمہارے قدموں کی قسم۔ سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘

تارا لپکتی ہوئی بغل والے کمرے میں گئی۔ مایا بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ مالکن کو دیکھتے ہی نیچی نظروں سے مسکرانے لگی۔ تارا نے فرطِ محبت سے مایا کی کلائی پکڑ کر پوچھا ۔ اوہو! آج تو بہت خوش دکھائی دیتی ہو۔ کچھ مل گیا ہے کیا؟‘‘ ’’اپنا کھویا ہوا دھن! بھولا ہوا پیار!‘‘ اس کی آنکھوں سے موتیوں کی جھڑی لگ گئی۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.