کھٹکتے ہیں نگاہ باغباں میں
کھٹکتے ہیں نگاہ باغباں میں
جو ہیں دو چار تنکے آشیاں میں
ہر اک سختی میں عالم نزع کا تھا
ہماری عمر گزری امتحاں میں
چھڑا لے سجدہ کرنے میں نہ کوئی
لگے ہیں لال سنگ آستاں میں
شرارے ہیں مرے نالوں کے قائم
کہ تارے جڑ دیے ہیں آسماں میں
قریب اب فصل گل شاید ہے صیاد
مزا آنے لگا میری فغاں میں
ترس آتا نہیں مجھ پر کسی کو
میں فریاد جرس ہوں کارواں میں
اثر مے کا ہے یا توبہ کا ناصح
کہ تلخی سی ہے کچھ اب تک زباں میں
تڑپنے والوں میں بھی تفرقہ ہے
قفس میں ہم ہیں بجلی آشیاں میں
کسی سے چھوٹ کر عالم ہے کچھ اور
پڑا ہے تفرقہ سا جسم و جاں میں
ریاضؔ استاد نے رتبہ یہ بخشا
ہماری دھوم ہے ہندوستاں میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |