کھینچ کر اس ماہ رو کو آج یاں لائی ہے رات
کھینچ کر اس ماہ رو کو آج یاں لائی ہے رات
یہ خدا نے مدتوں میں ہم کو دکھلائی ہے رات
چاندنی ہے رات ہے خلوت ہے صحن باغ ہے
جام بھر ساقی کہ یہ قسمت سے ہاتھ آئی ہے رات
بے حجاب اور بے تکلف ہو کے ملنے کے لیے
وہ تو ٹھہراتے تھے دن پر ہم نے ٹھہرائی ہے رات
جب میں کہتا ہوں کسی شب کو تو کافر یاں بھی آ
ہنس کے کہتا ہے میاں ہاں وہ بھی بنوائی ہے رات
کیا مزہ ہو ہاتھ میں زلفیں ہوں اور یوں پوچھیے
اے مری جاں سچ کہو تو کتنی اب آئی ہے رات
جب نشے کی لہر میں بال اس پری کے کھل گئے
صبح تک پھر تو چمن میں کیا ہی لہرائی ہے رات
دور میں حسن بیاں کے ہم نے دیکھا بارہا
رخ سے گھبرایا ہے دن زلفوں سے گھبرائی ہے رات
ہے شب وصل آج تو دل بھر کے سووے گا نظیرؔ
اس نے یہ کتنے دنوں میں عیش کی پائی ہے رات
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |