کہاں ہم رہے پھر کہاں دل رہے گا
کہاں ہم رہے پھر کہاں دل رہے گا
اسی طرح گر تو مقابل رہے گا
کھلی جب گرہ بند ہستی کی تجھ سے
تو عقدہ کوئی پھر نہ مشکل رہے گا
دل خلق میں تخم احساں کے بو لے
یہی کشت دنیا کا حاصل رہے گا
حجاب خودی اٹھ گیا جب کہ دل سے
تو پردہ کوئی پھر نہ حائل رہے گا
نہ پہنچے گا مقصد کو کم ہمتی سے
جو سالک طلب گار منزل رہے گا
نہ ہوگا تو آگاہ عرفان حق سے
گر اپنی حقیقت سے غافل رہے گا
خفا مت ہو بیدارؔ اندیشہ کیا ہے
ملا گر نہ وہ آج کل مل رہے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |