کہا کل میں نے اے سرمایۂ ناز
کہا کل میں نے اے سرمایۂ ناز
تلون سے ہے تم کو مدعا کیا
کبھی مجھ پر عتابِ بے سبب کیوں
کبھی بے وجہ غیروں سے وفا کیا
کبھی محفل میں وہ بے باکیاں کیوں
کبھی خلوت میں یہ شرم و حیا کیا
کبھی تمکینِ صولت آفریں کیوں
کبھی الطافِ جرات آزما کیا
کبھی وہ طعنہ ہائے جاں گزا کیوں
کبھی یہ غمزہ ہائے جاں فزا کیا
کبھی شعروں سے میرے نغمہ سازی
کبھی کہنا کہ یہ تم نے کہا کیا
کبھی بے جرم یہ آزردہ ہونا
کہ کیا طاقت جو پوچھوں میں “خطا کیاً
کبھی اس دشمنی پر بہرِ تسکیں
پئے ہم جلوہ ہائے دلربا کیا
یہ سب طول اس نے سن کر بے تکلف
جواب اک مختصر مجھ کو دیا کیا
ابھی اے شیفتہ واقف نہیں تم
کہ باتیں عشق میں ہوتی ہیں کیا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |