کہتا نہ تھا میں اے دل تو اس سے جی لگا نہ
کہتا نہ تھا میں اے دل تو اس سے جی لگا نہ
اس کا تو کیا گیا اب تیرا ہی جی گیا نہ
سو بار میں نے جھانکا چلمن سے اس کو لیکن
اتنا کہا نہ اس نے کیا دیکھتا ہے آ نہ
میں خوب رو چکا ہوں ظالم بس اور مجھ کو
آزردگی کی باتیں کہہ کہہ کے تو رلا نہ
جاتے ہی یار کے تو کہتا تھا مر رہوں گا
وقت وداع اے دل آخر تو مر گیا نہ
کل میں نے ہنستے ہنستے پوچھا کہ کوئی دم یاں
فرمائیے تو میں بھی بیٹھا رہوں کہ یا نہ
تیوری چڑھا کے بولا چل چل خبر لے اپنی
جی لگ رہا ہے تیرا جیدھر تو اپنے جا نہ
کہتا نہ تھا کہ ہر دم اس کی گلی میں مت جا
اس بات کا اب آخر چرچا حسنؔ ہوا نہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |