کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو
مطلب کی کہہ رہے ہیں وہ دانا ہمیں تو ہیں
مطلب کی پوچھتے ہو وہ ناداں تمہیں تو ہو
آتا ہے بعد ظلم تمہیں کو تو رحم بھی
اپنے کیے سے دل میں پشیماں تمہیں تو ہو
پچھتاؤ گے بہت مرے دل کو اجاڑ کر
اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمہیں تو ہو
اک روز رنگ لائیں گی یہ مہربانیاں
ہم جانتے تھے جان کے خواہاں تمہیں تو ہو
دل دار و دل فریب دل آزار و دل ستاں
لاکھوں میں ہم کہیں گے کہ ہاں ہاں تمہیں تو ہو
کرتے ہو داغؔ دور سے بت خانے کو سلام
اپنی طرح کے ایک مسلماں تمہیں تو ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |