کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو پھڑک گیا

کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو پھڑک گیا
by مرزا محمد رفیع سودا

کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو پھڑک گیا
تیغا سا کچھ نظر میں ہماری سڑک گیا

میں کیا کروں ادائے غضب ناک کا بیاں
بجلی سا میرے سامنے آ کر کڑک گیا

نالے سے میرے گل تو ہوا چاک پیرہن
بلبل ترا جگر نہ یہ سن کر تڑک گیا

کوئی گیا نہ خوف سے قاتل کے سامنے
میں ہی تھا اس کے رو بہ رو جو بے دھڑک گیا

مشکل پڑے گا پھر تو بجھانا جہان کا
جو ٹک زیادہ عشق کا شعلہ بھڑک گیا

سوداؔ چرا چکا ہی تھا گلشن میں گل کو میں
قسمت کو اپنی کیا کہوں پتا کھڑک گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse