کہنا نہ مانا کوچۂ قاتل میں رہ گیا

کہنا نہ مانا کوچۂ قاتل میں رہ گیا
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

کہنا نہ مانا کوچۂ قاتل میں رہ گیا
اچھا ہوا جو دل کسی مشکل میں رہ گیا

کیا پوچھتے ہو ایسے مسافر کی سرگزشت
جس کو کہ دل بھی چھوڑ کے منزل میں رہ گیا

نکلا تھا بن سنور کے بہت چودھویں کا چاند
پھر بھی وہ تیرے رخ کے مقابل میں رہ گیا

قاتل نے تیغ میان میں کچھ سوچ کر رکھی
تھوڑا سا جب کہ دم تن بسمل میں رہ گیا

درہم ملا بھی منعم کج خلق سے اگر
اک داغ بن کے وہ کف سائل میں رہ گیا

اتنا بتا دے اس کے اٹھانے سے فائدہ
تصویر بن کے جو تری محفل میں رہ گیا

کیا جانے بحر عشق کی حالت وہ بد نصیب
دم توڑ کر جو دامن ساحل میں رہ گیا

فکر اس کی رنج اس کا امید اس کی کچھ نہ پوچھ
جو سر جھکا کے کوچۂ قاتل میں رہ گیا

تعبیر خواب زلف مسلسل تھی کیا یہی
عالمؔ جکڑ کے میں جو سلاسل میں رہ گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse