کہنے اس شوخ سے دل کا جو میں احوال گیا
کہنے اس شوخ سے دل کا جو میں احوال گیا
واں نہ تفصیل گئی پیش نہ اجمال گیا
دام کاکل سے گلا کیا یہ جو ہے طائر دل
آپ اپنے یہ پھنسانے کو پر و بال گیا
دل بے تاب کی کیا جانے ہوئی کیا صورت
پیچھے اس شوخ ستمگر کے جو فی الحال گیا
لے گیا ساتھ لگا وہ بت قاتل گھر تک
یا اسے مار کے رستے میں کہیں ڈال گیا
خیر وہ حال ہوا یا یہ ہوئی شکل نظیرؔ
کچھ تأسف نہ کرو جانے دو جنجال گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |