کہنے بھی کچھ نہ پائے تھے آہ رسا سے ہم

کہنے بھی کچھ نہ پائے تھے آہ رسا سے ہم
by ریاض خیرآبادی

کہنے بھی کچھ نہ پائے تھے آہ رسا سے ہم
سننا پڑا کہ آج لڑیں گے ہوا سے ہم

ضد آپ کو اثر سے اثر کو دعا سے لاگ
فرمائیے تو ہاتھ اٹھا لیں دعا سے ہم

پیسیں کسے یہ کہتے ہیں فتنے دم خرام
اتنی بڑے حضور قیامت ذرا سے ہم

محشر میں پائی جام بکف حور زاہدو
اچھے رہے یہاں بھی تمہاری دعا سے ہم

سوتے میں کام آئی نہ کچھ چشم نیم باز
کھل کھیلے آج یار کے بند قبا سے ہم

ہم جانتے ہیں خوب اداؤں کی شوخیاں
ہم ہیں ادا شناس ڈریں کیا قضا سے ہم

اٹھ جائے بار شرم تو سو فتنے ہم اٹھائیں
کہتی ہے وہ نگاہ دبے ہیں حیا سے ہم

حوروں کے بدلے ہوں بت کافر ہمیں نصیب
تم کو اگر ستائیں تو پائیں خدا سے ہم

کرتے نہ ہم وفا تو نہ بڑھتے جفا و جور
شرمندہ وہ جفا سے تو اپنی دعا سے ہم

ممکن ہے جا کے عرصۂ محشر میں سر اٹھائیں
تیری گلی میں دب کے رہے نقش پا سے ہم

ان کے لئے مزے کی سزا ہے یہی ریاضؔ
محشر میں مانگ لیں گے بتوں کو خدا سے ہم

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse