کہوں کیا آرزوئے بے دلی مُجھ کو کہاں تک ہے

کہوں کیا آرزوئے بے دلی مُجھ کو کہاں تک ہے (1924)
by محمد اقبال
295921کہوں کیا آرزوئے بے دلی مُجھ کو کہاں تک ہے1924محمد اقبال

کہوں کیا آرزوئے بے دلی مُجھ کو کہاں تک ہے
مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے

وہ مے کش ہوں فروغِ مے سے خود گُلزار بن جاؤں
ہوائے گُل فراقِ ساقیِ نا مہرباں تک ہے

چمن افروز ہے صیّاد میری خوش‌نوائی تک
رہی بجلی کی بے تابی، سو میرے آشیاں تک ہے

وہ مُشتِ خاک ہوں، فیضِ پریشانی سے صحرا ہوں
نہ پُوچھو میری وسعت کی، زمیں سے آ سماں تک ہے

جرَس ہوں، نالہ خوابیدہ ہے میرے ہر رگ و پے میں
یہ خاموشی مری وقتِ رحیلِ کارواں تک ہے

سکُونِ دل سے سامانِ کشودِ کار پیدا کر
کہ عقدہ خاطرِ گرداب کا آبِ رواں تک ہے

چمن زارِ محبّت میں خموشی موت ہے بُلبل!
یہاں کی زندگی پابندیِ رسمِ فغاں تک ہے

جوانی ہے تو ذوقِ دید بھی، لُطفِ تمنّا بھی
ہمارے گھر کی آبادی قیامِ میہماں تک ہے

زمانے بھر میں رُسوا ہوں مگر اے وائے نادانی!
سمجھتا ہوں کہ میرا عشق میرے رازداں تک ہے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.