کہوں کیا دل اڑانے کا ترا کچھ ڈھب نرالا تھا
کہوں کیا دل اڑانے کا ترا کچھ ڈھب نرالا تھا
وگرنہ ہر طرح سے اب تلک تو میں سنبھالا تھا
کہاں اب کھل کے وہ رونا کدھر وہ اشک کی شورش
کبھو کچھ پھوٹ بہتا ہے جگر پر وہ جو چھالا تھا
ہوا آوارۂ دشت و بیاباں دیکھتے اپنے
وہ طفل اشک جو الفت سے آنکھوں بیچ پالا تھا
ترا غم کھا گیا میرا کلیجہ دل سبھی یک بار
ہوا ہوگا کہاں سے سیر یہ تو اک نوالہ تھا
ابھی تو لگ نہ چلنا تھا اثرؔ اس گل بدن کے ساتھ
کوئی دن دیکھنا تھا زخم دل بے طرح آلا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |