کہو بلبل کو لے جاوے چمن سے آشیاں اپنا
کہو بلبل کو لے جاوے چمن سے آشیاں اپنا
پڑھے گر صد ہزار افسوں نہ ہوگا باغباں اپنا
چلی جب باغ سے بلبل لٹا کر خانماں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا
نہ تو نے گل کیا اپنا نہ بلبل باغباں اپنا
چمن میں کس طرح سیتی بنایا خانماں اپنا
اٹھا کر لے چلی بلبل چمن سے آشیاں اپنا
کہا گل سے کہ لے یہ بے وفا ہم سے مکاں اپنا
ہوئی جب باغ سے رخصت کہا رو رو کے یا قسمت
لکھا تھا یوں کہ فصل گل میں چھوڑیں خانماں اپنا
ارے صیاد یوں چاہے تو جی اور جان سے حاضر
ولیکن طوق قمری کی طرح کر کے نشاں اپنا
مرا جلتا ہے جی اس بلبل بیکس کی غربت پر
کہ گل کے آسرے پر یوں لٹایا یاں خانماں اپنا
الم کر اس طرح روئی کہ رسوا ہو گئی بلبل
ڈبایا ہائے آنکھوں نے تمامی خانماں اپنا
مگر دل سے بنا رکھنا علی گوہر سے پیارے کو
وہ شاہی گو کہ رکھتا ہے ولے ہے مہرباں اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |