کہو تو آج دل بے قرار کیسے ہو
کہو تو آج دل بے قرار کیسے ہو
شب الم کے ستائے نزار کیسے ہو
ہوس یہی ہے کہ پوچھے وہ آ کے ہم سے کبھی
ہماری دید کے امیدوار کیسے ہو
تڑپ رہے ہو لحد میں کہ چین و راحت ہے
کہو تو مجھ سے کہ اہل مزار کیسے ہو
نہ اس طرح کرو پامال دل کو عاشق کے
سمند ناز کو روکو سوار کیسے ہو
ہماری راہ نہ کھوٹی کرو خدا کے لیے
ہمیں ستاؤ نہ صحرا کے خار کیسے ہو
کنارا خواب کو ہے چشم تر سے عاشق کے
خیال جلوۂ دیدار یار کیسے ہو
جمیلہؔ میری زباں سے نہ کچھ نکل جائے
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں بار بار کیسے ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |