کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریں

کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریں
by میر حسن دہلوی

کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریں
وگر لگاویں تو مشکل کہ بے حواس پھریں

ہمیں بھی ہووے اجازت کہ شمع رو تجھ پر
پتنگ کی نمط اک دم تو آس پاس پھریں

تری گلی میں بھلا اتنی تو ہمیں ہو راہ
کہ جب تک اپنا وہاں جی ہو بے ہراس پھریں

اٹھا دے ہم سے جو بیٹھے ہوؤں کو اب کی فلک
تو آرزو ہے یہ جی میں کہ بے قیاس پھریں

نہ خط کسی کا پڑھے ہے حسنؔ نہ وہ عرضی
کہاں تلک لئے ہم اپنا التماس پھریں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse