کہیں کیا کہ کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
کہیں کیا کہ کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
لکھا ہے جو قسمت میں ہم دیکھتے ہیں
کبھی آہ نعرہ کبھی کھینچتے ہیں
ہم اس ساز کا زیر و بم دیکھتے ہیں
خط سر نوشت اپنا ہم پڑھ رہے ہیں
تمہارا جو نقش قدم دیکھتے ہیں
مرے رو بہ رو وہ بہم غیر سے ہیں
نہ دیکھے کوئی جو کہ ہم دیکھتے ہیں
رہی گر تلاش کمر یوں ہی ہم کو
کوئی دم میں ملک عدم دیکھتے ہیں
ہزاروں گماں دل میں ہوتے ہیں پیدا
ترے ہاتھ میں جب قلم دیکھتے ہیں
نہیں جانا کس دن تو غیروں کے گھر پر
صریحاً تو آنکھوں سے ہم دیکھتے ہیں
نہیں آرزو کچھ بھی بوسے کی ہم کو
مگر ہم تمہارا کرم دیکھتے ہیں
جو عالم کہ دیکھا ہے کوئے بتاں میں
خدا کی خدائی میں کم دیکھتے ہیں
نظر آتے ہو سحرؔ عاشق کسی پر
تمہیں ہر گھڑی چشم نم دیکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |