کہے یہ کون مکاں اپنا لا مکاں اپنا
کہے یہ کون مکاں اپنا لا مکاں اپنا
ازل کے بعد سے ملتا ہے کچھ نشاں اپنا
ہے کچھ تو بات کہ دعویٰ ہے اک جہاں کا یہی
کہ تو ہے اپنا زمیں اپنی آسماں اپنا
ہر ایک گام پہ ہر سمت ہے سجود نیاز
دیار یار کو جاتا ہے کارواں اپنا
نظر بھی دفتر اعمال پر وہ کر نہ سکے
تھا اپنا حال زباں اپنی اور بیاں اپنا
در رقیب پہ سجدے میں آہ دم توڑیں
ہو جن کا قول سر اپنا ہے آستاں اپنا
عدم سے پہلے کی حالت عدم کے بعد کا حال
مجھی سے پوچھ کہ میں خود ہوں رازداں اپنا
یہ پوچھتا ہے کہ کیوں دل میں ہے اک آگ لگی
یہ دیکھتا نہیں جلتا ہے آشیاں اپنا
نہیں خیال نشیمن ملال ہے تو یہ ہے
کہ ہم نے آپ اجاڑا ہے آشیاں اپنا
ہر ایک شعلہ لرزتا ہے اور ہم چپ ہیں
قفس کے سامنے جلتا ہے آشیاں اپنا
گری تھی کوند کے بجلی کبھی نشیمن پر
یہ دیکھتا ہوں کہ جلتا ہے آشیاں اپنا
ابھی جمال سے پردے ہزار باقی ہیں
حریم یار میں بیخودؔ گزر کہاں اپنا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |