کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے

کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے
by جوشش عظیم آبادی

کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے
یہ دل تو ہے وہی اسے پہچان لیجئے

ہم سے تو یہ کبھی نہیں ہونے کا ناصحو
سنئے تمہاری بات کو اور مان لیجئے

نے عیش کی طلب ہے نہ عشرت کی آرزو
اے چرخ کس لیے ترا احسان لیجئے

گر حکم ہو تو کاٹ کے سر آگے لا رکھوں
لینے کا اس کے رکھئے نہ ارمان لیجئے

آیا ہوں تنگ شہر میں وحشت کے ہاتھ سے
جی چاہتا ہے راہ بیابان لیجئے

گر امتحان عشق ہو منظور تو ابھی
کرتا ہوں میں نیاز دل و جان لیجئے

منہ دیکھ نو خطوں کا یہی آئے ہے خیال
دے کر کے نقد جان یہ قرآن لیجئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse